Alfia alima

Add To collaction

آخری کوشش

آخری کوشش
ٹکٹ بابو نے گیٹ پر گھسیٹے کو روک کر کہا: 

’’ٹکٹ!‘‘ 

گھسیٹے نے گھگھیا کر بابو کی طرف دیکھا۔انھوں نے ماں کی گالی دے کر اسے پھاٹک کے باہر ڈھکیل دیا۔ ایسے بھک منگوں کے ساتھ جب وہ بلا ٹکٹ سفر کریں اور کیا ہی کیا جاسکتا ہے؟ 

گھسیٹے نے اسٹیشن سے باہر نکل کر اطمینان کی سانس لی کہ خدا خدا کر کے سفر ختم ہوگیا۔راستہ بھر ٹکٹ بابوؤں کی گالیاں سنیں، ٹھوکریں سہیں، بیسیوں بار ریل سے اتارا گیا۔ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن سے پیدل بھی چلنا پڑا، ایک دن کے سفر میں بائیس دن لگے مگر ان باتوں سے کیا؟ کسی نہ کسی طرح اپنے وطن تو پہنچ گئے— وطن! پچیس برس کے بعد وطن۔ ہاں پچیس ہی برس تو ہوئے جب میں کلکتہ پہنچا تو کالی مل کھلی تھی اور اب لوگ کہتے ہیں کہ اس کو کھلے پچیس برس سے زیادہ ہوگئے۔ آگئے وطن۔ ہاں اب فاصلہ ہی کیا ہے۔ اگر یاد غلطی نہیں کرتی ہے تو دوکوس کا کچا راستہ اور —دو گھنٹہ کی بات۔ 

اپنا گھر! اپنے لوگ! وہ نعمتیں جن کا پچیس سال سے مزا نہیں چکھا۔ کلکتہ میں گھر کے نام کو سڑک تھی یا د کانوں کے تختے یا پھر شہر سے میلوں دور ٹھیکہ دار کی جھونپڑیاں جس کی زمین پر اتنے آدمی ہوتے تھے کہ کروٹ لینے بھر کی جگہ نہ ملتی تھی۔ رہے اپنے لوگ سو وہاں اپنا کون تھا؟ سب غرض کے بندے، بے ایمان، حرام زادے، ایک وہ سالا تھا بھوندو اور دوسرا تھا بھورا اور وہ ڈائن بھنگوی جو خونچے کی ساری آمدنی کھا گئی، وہ ملوں کے مزدور۔ بھائی ہیں بھائی ہیں، مگر مزدوری کا موقع آیا کہ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑگئی۔جہاں جاؤ کوئی دوسرا مزدور سفارش لئے موجود یہاں سفارش کرنے والا کون تھا؟ جب جیلر نے آکر مجھے حکم سنایا ہے کہ تیری میعاد ختم، تو آنکھوں سے نہ جانے کیوں آنسو نکل آئے۔ بس ایک دم سے گھر کی یاد آگئی۔ گھر! کیا چیز ہے؟ 

گھسیٹے کو یقین تھا کہ پچیس سال کی تھکی ماندی آتما کو گھر پہنچتے ہی سکھ مل جائے گا۔، اور گھراب قریب تھا۔ 

اسٹیشن سے کچھ دور آکر گھسیٹے بھونچکا سا رہ گیا۔ یہاں کی دنیا ہی اب اور تھی۔ کھیتوں اور باغوں کی جگہ ایک شکر مل کھڑی دھواں اڑا رہی تھی۔ جس کی عمارتیں یہاں سے وہاں تک نظر آتی تھیں۔ کچی سڑک کی جگہ اب پکی سڑک تھی اور اس کے برابر مل تک ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی تھیں۔ سڑک خوب آباد تھی۔ مزدوروں کے بہت سے چھوٹے چھوٹے غول آجارہے تھے۔ اتنی دیر میں کئی موٹریں فراٹے بھرتی نکل گئی تھیں۔ ایک مال گاڑی چھک چھک کرتی جارہی تھی۔ غرض کہ جغرافیہ اتنا بدل گیا تھا کہ راستہ پہچاننا بس سے باہر تھا لیکن پھر بھی گھسیٹے کا دل اس بات پر راضی نہ ہوا کہ میں اپنے اسٹیشن پر اتر کر اپنے ہی قصبہ کا راستہ پوچھوں۔ یہ آپ ہی آپ ایک طرف مڑگیا۔ تھوڑی دور آکر جب شکر مل کی حدیں ختم ہونے لگیں،اور اوکھ کے کھیتوں اور باغوں کا سلسلہ آگیا۔ تب اس کے دل نے دھڑک کر کہا میرا راستہ ٹھیک ہے۔ 

ڈیڑھ کوس چلنے کے بعد اپنے قصبے کے تاڑ دکھائی دینے لگے۔ ذرا اور چل کر شاہی زمانے کی ایک ٹوٹی ہوئی مسجد ملی جس کا ایک مینار تو ناچتی ہوئی بیلوں سے منڈھا اور جنگلی کبوتروں سے آباد تھا اور دوسرا تقریباً مسلم زمین پر لیٹا کائی کی مخملیں چادر اوڑھے تھا۔ اس پر نظر پڑنا تھی کہ بچپن کی بہت سی چھوٹی چھوٹی یادیں جو کب کی بھول چکی تھیں۔ پچیس برسوں کے بھاری بوجھ کے نیچے اکدم پھڑ پھڑا کر تڑپ کر نکل آئیں اور کم سن دیہاتی چھو کریوں کی طرح سامنے اچکنے کودنے لگیں۔ وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب اس مسجد کے گرد پانی بھر جاتا اور گاؤں بھر کے لونڈے ننگے اس میں نہاتے تھے۔ اس وقت بھی یہ کھڑا مینار یوں ہی کھڑا تھا اور لیٹا مینار یوں ہی لیٹا تھا۔ 

آگے چل کر برگد کا درخت ملا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ہیرا، بفاتی، بلاقی، تینو، نیولا، سورج، بلی اور کنوا سالا کیا نام تھا اس کا اور کون کون ساری کی ساری ٹولی جمع ہوتی تھی اور دن بھر سیار مار ڈنڈا اڑا کرتا تھا۔ وہ گڑھیا کے اس پار امرود کا ایک باغ تھا۔ اس پر کبھی کبھی لونڈا ڈاکہ پڑا کرتا تھا۔ لونڈے گھس گئے اور چپکے چپکے کچے پکے امرود نوچ نوچ کر جیبوں میں بھرنے لگے۔ اور رکھوالا ماں بہن کی سناتا دوڑا اور ادھر آناً فاناً میں سب ہوا ہوگئے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ لونڈے امرود کھسوٹ رہے تھے کہ ادھر سے ایک فقیرنی آنکلی جو منمنا منمنا کر گارہی تھی ۔ کچھ لونڈوں کو سوجھی شرارت۔ وہ چڑیل چڑیل چلا کر بھاگے۔ پھر کیا تھا۔ سب سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔ بلاقی رہ گیا۔ ارے ڈر کے مارے اس کی جو گھگھی بندھی ہے اور جو لگا ہے فقیرنی کے سامنے ہاتھ جوڑنے۔۔۔۔۔۔۔ 

گھیسٹے یہ یاد کر کے بے اختیار ہنس پڑا۔ 

سورج دن بھر کا سفر طے کر کے افق کے قریب پہنچ چکا تھا۔ دھوپ میں ملائمت آگئی تھی اور ہوا میں خوش گوار خنکی۔ راستے کے ایک طرف پتاور کے ہرے بھرے جھنڈ تھے۔ جن کے بچت بیچ سے بوڑھی سرکیاں سروں کو نکالے جوانوں کی طرح کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ دوسری طرف آسمان کے کنارے تک کھیتوں اور امرود کے باغوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ بسیرا لینے والی میناؤں اور کوؤں کا شور کھیتوں سے واپس آنے والے بیلوں کی گھنٹیاں، ہلواہوں کی ہٹ ہٹ باغوں کے رکھوالوں کی ہو ہو، ان سب سے ہوا اسی طرح بسی ہوئی تھی، جیسے پتاوروں کی بھینی بھینی میٹھی میٹھی خوشبو سے معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا ایک بہت بڑا گھر جس کے رہنے والے یعنی کھیت، درخت، ہوا، آنے والی صدائیں اور خوشبو، سب قریبی رشتہ دار ہیں اور خوشی خوشی مل جل کر رہتے ہیں۔ 

کسانوں کا ایک جتھا کھیتوں سے واپس آتا ہواملا۔ آگے آگے ایک لڑکی پھٹی اوڑھنی سر سے لپیٹے گاتی چلی جارہی تھی۔ اس کے پیچھے ہلوں کو کندھے پر رکھے، بیلوں کو ہنکاتے چھ سات مرد تھے۔ ان لوگوں نے پھٹے حال گھیسٹے کی طرف توجہ نہ کی۔ مگر جیسے ہی گھیسٹے کی ان میں سے ایک شخص سے نگاہ ملی۔ وہ بے اختیار مسکرا دیا جیسے کوئی دور دراز سفر سے آنے والا اپنے عزیزوں کو دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔ 

ادھر سورج افق کے دامن میں چھپا اور ادھر قصبہ آگیا۔ اس کا نشان ایک اکل کھڑا تاڑ تھا جس سے کچھ دور ہٹ کر آم کے دوچار بوڑھے درخت شام کا دھندلکا اوڑھے کسی یاد میں کھوئے کھڑے تھے۔ اس مقام سے ایک بہت رومان بھری یاد انگڑائی لے کر اٹھی اور گھیسٹے کے پاؤں تھام لئے۔ وہ بلا ارادہ کھڑا ہوگیا۔ وہ سامنے کی جھاڑی اور گڑھیا، یہیں دلاری سے چھپ چھپ کر ملتے تھے۔ وہ بھرے جسم کی جہنا ایسی دلاری جس کے نہ روٹھنے کا ٹھیک پتہ چلتا تھا اور نہ منےچ کا۔ وہاں بیٹھ کر وہ دلاری کا انتظار کرتا تھا، تو دل میں کیا کیا نقشے بنتے تھے۔ شہر جاؤں گا، نوکری کروں گا۔ دونوں وقت چنے چباؤں گا مگر روپیہ جوڑ جوڑ کر رکھوں گا۔پھر جب ڈھائی سو روپہ ہوجائے گا تو واپس آؤں گا اور ہیرا لال کی طرح ایک دم سے ایک گوئی بیل لے کر کھیتی شروع کروں گا۔ اس وقت دلاری میری کتنی خوشامدیں کرے گی۔ میں تو کم سے کم دو مہینے تک اس سے بات بھی نہ کروں گا۔ بس اس جگہ ٹہلتے آجایا کروں گا۔ وہ آئے گی ضرور اور وہاں درخت کی جڑ پر بٹھ ، گڑھیا میں ڈھیلے پھینکے گی، گنگنائے گی، میری طرف کن انکھیوں سے دیکھ دیکھ کر ہنسے گی۔بڑی چڑیل تھی نہ جانے اب کہاں ہے؟ 

گھیسٹے درختوں کے اندر گھس کر دیکھنے لگا کہ پرانی گڑھیا اب تک ہے؟ ہاں ہے تو اور وہ سامنے جمنی کا درخت بھی ہے جس کی جڑ پر وہ بیٹھتی تھی۔ کیا زمانہ تھا۔ 

گھیسٹے درختوں سے نکل کر سڑک پر آگیا اور قصبے کے اندر چلا ۔ مگر اب اس کی چال دھیمی تھی۔ وہ ان یادوں میں ایسا ڈوب گیا تھا کہ آنکھیں دیکھنا اور کان سننا بھول گئے تھے۔ ایک ایکی ایک موڑ پر چونک پڑا جیسے کوئی بسری بات اک دم یاد آگئی ہو۔ یہی جگہ تو ہے۔ ہاں یہیں ابا نے دو چانٹے مارکر میرے گلے سے شبن میاں کی قمیص کا بٹن نوچ لیا تھا۔ ادھر شبن میاں گھر کے اندر آئے اور ادھر ڈانٹ لگائی۔ ’’گھیسٹے! گھیسٹے! کدھر مر گیا؟‘‘ ٹانگیں پھیلا کر دونوں بوٹ میرے منہ کی طرف بڑھادیے۔ ان کو اتارو، پھر جرابیں اتارو، پھر انگلیوں کو تولئے سے پونچھو، پھر جوتی لاکر پاؤں کے نیچے دھرو—شبن میاں کی چیزیں دیکھ دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ ان میں سے دو ایک ہمارے پاس بھی ہوتیں! ہمارے پاس کیا تھا؟ ایک پھٹا کرتہ پاجامہ پہنے رہتے تھے۔ جب وہ بالکل چیتھڑے ہوجاتا تو خاں صاحبن پھر کسی کا پرانا دھرانا جوڑا دے دیتیں۔ ’’پھر پھاڑ لایا؟ اس کے بدن پر تو کانٹے ہیں۔ یہ کہاں سے کھونچا لگایا؟ —کمینے کو کبھی تمیز نہ آئے گی۔‘‘ ایک بار شبن میاں کے کمرے میں جو گیا تو دیکھتا کیا ہوں کہ قمیص کے کف کے دو بٹن پلنگ پر پڑے چم چم کر رہے ہیں۔ اس وقت کچھ ایسے پیارے معلوم ہوئے کہ میں چپکے سے ایک مٹھی میں دبا لیا۔ تھوڑی دیر میں شبن میاں چلانے لگے، ’’ایک بٹن کیا ہوا؟ کون لے گیا؟‘‘ میں نے جی میں کہا۔ میں لایا ہوں۔ کہو کیا کہتے ہو؟ بٹن تو نہ دوں گا چاہے کچھ کرو۔ بلکہ اب تو تمہارے گھر کا کام بھی نہ کروں گا۔ سب کی آنکھ بچا کر باہر چلا آیا۔ میری قمیص میں آستین کہاں تھی؟ میں نے وہ بٹن گلے میں اس طرح لگایا کہ بٹن اور زنجیر دونوں چیزیں باہر چم چم کریں اور پھر دن بھر بھوکا پیاسا کھیتوں کھیتوں گھومتا رہا۔ جب رات آگئی تب فکر ہوئی کہ اب کہاں جاؤں گا۔ میں ادھر ادھر دبکتا پھرتا تھا کہ ابا نے جو میری کھوج میں لگے تھے، دیکھ لیا۔ ’’تو شبن میاں کا سونے کا بٹن لے آیا—سونے کا بٹن‘‘۔ دو تھپڑ پڑے تھے کہ میں بھاگا۔ سونے کا بٹن۔ کلکتہ میں چار پیسے پتہ ملتا ہے جتنے چاہو اتنے لے لو۔ 

چھپروں اور نیچی نیچی کچی دیواروں پر شام کی سانولی رنگت چھاگئی۔ فضا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ جس سے دل کو عجب سکون ملتا تھا۔ گھروں میں چولھے جل گئے تھے جن کا دھواں اور سرخی چھپروں سے نکل نکل کر بلا کسی گھبراہٹ کے اوپر چڑھ رہے تھے۔ پکارنے اور زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں جو اپنے ساتھ دن بھر کی تکان کو لئے بھاگی جارہی تھیں۔ دوارے پر لڑکے لڑکیاں اونچا نیچا کھیل رہے تھے اور بے حد شور مچا رہے تھے جیسے بسیرا لیتے وقت جنگلی مینائیں—ایک گھوڑا دن بھر دوڑ دھوپ کر کے ابھی ابھی تھان پر آیا تھا اور خوشی سے ہنہنا رہا تھا۔ 

آخر مسجد آگئی۔ اسی کی بغل سے گھٹےدو کا راستہ جاتا تھا۔ پہلی تاریخوں کا ہلال مسجد کے ایک مینار سے لگا ہوا چمک رہا تھا۔ اسے دیکھ کر گھیسٹے کو ایک بارات یاد آگئی۔ جو باجے گاجے لئے مشعلیں جلائے ایک کمزور سی ناؤ پر، چڑھی گنگا کی خونی لہروں کو پار کر کے کنارے آ اتری تھی۔ 

بغیا بھی آگئی۔ اس کے پار آبادی سے ذرا نکل کر گھر تھا۔ گٹے کا دل امیدوں بیم سے زور زور سے دھڑکنے لگا اور ساتھ ساتھ خوشی کے مارے آنسو نکل پڑے۔ آنکھوں کے سامنے گھر کی تصویر پھر گئی۔ بڑا سا صاف ستھرا لیپا پوتا چھپر۔ دو بڑی بڑی اناج کی کھٹیاں۔ رات کو نہ معلوم کب سے اٹھ کر اماں کا گھرڑ گھرڑ چکی پیسنااور اس پر گانا۔ ’’موری چھاگل نہ بولے‘‘۔ دن کو کام کاج کرکے گھر آؤ اور لاکھ چلاؤ،’’اماں روٹی دے دو،اماں روٹی دے دو۔‘‘اور چلاتے چلاتے تھک جاؤ رودھو کر اماں اسی طرح پیسے چلی جاتی ہیں۔ جب اس کا جی چاہتا تب اٹھ کر چولہا جلاتی جمیا اور شبراتن! افوہ! دونوں کو اماں کتنا مارتی تھی۔ اور تھیں وہ بھی دونوں بڑی حرامزادی۔ کبھی جو کام کرتیں—ادھر ابا کلہاڑی کندھے پر رکھے بکریاں ہانکتا گھر میں گھستا اور ادھر چلانے لگتا۔ ادھر اماں پر غصہ آیا اور جو نٹے پکڑ کر دھوئیں دھوئیں —واہ ری اماں جہاں کسی کا جی خراب ہوا اس کے جی کو لگ گئ۔ پھر تو یہ ہے ’’ارے آ ترا سرداب دوں‘‘— ادھر آبخر گجراتاروں— چاندنی میں بیٹھ کر نہ کھا‘‘۔ دونوں وقت ملتے نہ چلا۔ ہر وقت ٹٹکا اتار رہی ہے۔ آنے جانے والوں سے پوچھ پوچھ دوا پلارہی ہے—کھانے کی کتنی شوقین تھی۔ کچے پکے، گلے سڑے، کھٹے میٹھے جیسے ہی آم مل جائیں بڑےمزے سے بیٹھ کر سب کھا جاتی تھی۔ کچے پکے امرود، جھربیریاں، کیتھے اور کیا کیا سب شوق سے کھاتی تھی مگر بچوں کا کھانا اسے برا نہیں لگتا تھا۔ وہ قصہ جو ہوا تھا کہ اماں کو کہیں سے گڑ کی بھیلی مل گئی۔ اس نے طاق میں رکھ دی۔ میں ادھر سے آؤں چرا کر ایک ٹکڑا منہ میں رکھ لوں۔ شام کو ابا نے جو دیکھا تو ذرا سا گڑ تھا۔ وہ لگے ڈکارنے۔ ’’کون کھا گیا؟‘‘ اماں سمجھ گئیں۔ سہولیت سے بولیں، ’’چوہا کھا گیا ہوگا‘‘—’’تو کھا گئی ہے تو کیا چوہے بلی گڑ کھاتے ہیں؟‘‘ اماں نے کہا ، ’’کیوں؟ کیا ان میں جان نہیں ہے؟‘‘ میں نے جی میں کہا کہ دیکھو جب شہر سے کما کر لوٹوں گا تو گڑ کی ایک پاری بھی لاؤں گا۔ تب تو یہی ابا چٹخارے ماریں گے۔ ’’واہ کیا مجا ہے۔‘‘ جمیا اور شبراتن آنکھیں پھیلا پھیلا کر تکیں گی۔ منہ سے پانی چھوٹے گا۔ 

گھر میں اب کون ہوگا؟ ابا اماں بھلا کیا زندہ ہوں گے؟ ستر اسی برس کون جیتا ہے۔ جمیا اور شبراتن کہیں بیاہ دی گئی ہوں گی۔ ہاں فقیرا تو جوان ہوگا۔ بھورے کے تو بیوی بچے ہوں گے اور بکریاں؟ افوہ کلو کے ناتنوں کی ناتنیں ہوں گی۔ کلو زندہ ہو تو پہچانے گی؟ جب بھوکی ہوتی تھی تو میری طرف دیکھ دیکھ کر کیسا میں میں کرتی۔ 

(۲) 

سامنے گھر ہے کہ نہیں؟ بغیا سے باہر آتے ہی گھیسٹے کے دل نے دھڑک کر بڑی بے تابی سے پوچھا—وہ جگہ تھی وہ — ہاں— وہاں کچھ ہے تو ضرور۔ 

شروع تاریخوں کی اوس کی ماری بیمار چاندنی میں اندھیرے اجالے کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ ایک دیوار تھی جس کا آدھا حصہ تو ٹیلے کی طرح ڈھیر تھا۔ آدھا جو کھڑا تھا۔ اس پر ایک ٹوٹا پھوٹا چھپر تھا جس کا پھونس دھواں کھائے ہوئے مکڑی کے جالے کی طرح ہر طرف جھول رہا تھا۔ چھپر کے سامنے کی طرف چوحدی کی جگہ جھانکڑوں، تاڑ کے پتوں اور کسی سوکھی بیل کا ملا جلا ایک اڑم تھا جن کے پتلے پتلے ٹیڑھے میڑھے سائے کیچوؤں اور کھنکھجوروں کی طرح زمین پر بجبجا رہے تھے۔ گھر اور اپنے سناٹے میں قبرستان تھا۔ اندر نہ چولھا جل رہا تھا نہ چراغ۔ گھر کی ایک ایک چیز پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ’’ہم خود ٹکڑے کو محتاج ہیں—تم کو کیا کھلائیں گے؟‘‘ 

یہی گھر تھا جہاں مسافر کی تھیت ماندی آتما کو چین کی تلاش تھی۔ گھسیٹے کی امیدوں کا چمن جسے وہ بائیس روز سے پچیس برسوں کے کچلے ارمانوں کے خون سے سینچ رہا تھا، اکبارگی مرجھا گیا۔ اس کا دل بار بار شک دلاتا کہ یہ گھر خالی ہوگا۔ وہ لوگ کہیں اور اٹھ گئے ہوں گے، اور بار بار بکریوں کے موت کی کرھاند اور نابدان کی سڑھاند جو بوجھل ہوا سے دبی ہوئی گھر کے گرد مقید تھیں، ان بالو کے گھروندوں کو ڈھادیتیں۔ گھٹےبد آدھ گھنٹے تک جہاں تہاں کھڑا رہا۔ اس میں اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اندر جاتا یا کسی کو آواز دیتا۔ 

دور کہیں پر ایک پلا رو رہا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی آواز سے ایک طرح کی ڈھارس بندھی اور یہ کھکھارا، جواب نہ ملنے پر پھر کھکھارا، بار بار کھکھارنے پر کوئی دبے پاؤں باہر آیا اور راز دارانہ لہجے میں بولا: 

’’اندر چلی آؤ نا۔‘‘ 

اس دھوکے سے گھسیٹے کی ہمت اور سکڑ گئی۔ اب وہ سہارا لینے کو سچ مچ کھکھارا،پھر کہنے لگا: 

’’کون فقیرا؟‘‘ 

’’ہاں!‘‘ 

فقیرا ذرا چڑ کر بولا،’’تم کون ہو؟‘‘ 

’’ذرا ادھر آؤ۔‘‘ 

فقیرا نکل کر قریب آیا اور بولا، ’’تم کون ہو،؟ یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ 

’’ذرا سنو تو بھائی، تم فقیرا ہونا؟‘‘ 

’’ہاں —کہہ تو دیا۔‘‘ 

’’تم یہیں رہتے ہو۔‘‘ 

گھٹےا کی آواز میں کچھ اتنا پیار تھا کہ فقیرا کا غصہ تو غائب ہوگیا، مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ شخص کون ہے اور کیا چاہتا ہے۔ دوسری طرف گھیسٹے کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اپنے کو کیسے پہچنوائے۔ اسے خیال تک نہ آیا تھا کہ اپنے گھر پہنچ کر یہ کام بھی کرنا ہوگا۔ آخر دل کڑا کر کے بولا: ’’میں بائیس روز کا سفر کر کے آرہا ہوں—تمہارے پاس۔‘‘ 

اب بھی فقیرا کچھ نہیں سمجھا مگر بلا ارادہ اس کی زبان سے نکل گیا:’’تو اندر آؤ۔‘‘ 

اندر آکر گھٹےچھ کی ہمت بندھی اور ساتھ ہی راحت پانے کی امید بھی بلاوجہ ہریانے لگی۔ فقیرا نے دیا سلائی کھینچ کر چراغ جلایا۔ چھپر کے نیچے سات بکریاں اور بکریوں کے بچے بندھے تھے۔ انھیں سے شاید گھرانے کی روٹی چلتی تھی۔ ذرا ادھر ہٹ کر زمین پر ایک چھیدھا ٹاٹ بچھا تھا جس پر ایک میلی سی چیز جو شاید کبھی رضائی ہو مگر چیتھڑا ہو کر گمنام ہوگئی تھی، اوڑھنے کے لئے پڑی تھی۔ گھٹےا نے ٹاٹ پر بیٹھ کر کپکپاتے چراغ کی دھندلی روشنی میں فقیرا کو غور سے دیکھا۔ دبلا پتلا، آنکھیں اندر دھنسی ہوئی اور بے نور چہرے کی کھال جوتے کے چمڑے کی طرح کھردری اور اس پر دونوں طرف دو لمبی لمبی جھریاں، جیسے کچی دیوار پر برکھا کے پانی کی لکیریں۔ بال کھچڑی جن میں سفیدی زیادہ۔ یہ تھا گھٹےبل کا جوان بھائی فقیرا! مصیبت زدہ گھٹےان دیکھنے میں اس سے زیادہ جوان تھا۔ 

گھٹےسف اس کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ کر بولا، ’’ بھیا تم تو جوانی ہی میں بڑھائے گئے۔‘‘ 

فقیرا ٹھنڈی سانس بھر کر بولا: 

’’جوانی تو کھلائی پلائی سے ٹھہرتی ہے۔‘‘ 

’’سچ ہے بھیا— بھورا، جمیا اور شبراتن کہاں ہیں‘‘؟ 

اب فقیرا ٹھٹکا—’’پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم کون ہو—گھٹے؟’ تو نہیں ہو‘‘۔ 

’’ہاں گھٹےیا ہوں اور کون۔ بائیس دن ٹھوکریں کھا کر آرہا ہوں۔‘‘ 

بھیا کہہ کر فقیرا اس سے لپٹ گیا۔ گھٹےبا نے بھی بھینچ کر اسے لپٹا لیا اور جیسے کوئی سوتا پھوٹ جائے، اس کے آنسو دھل دھل بہنے لگے۔ فقیرا بھی رودیا— تھوڑی دیر تک دونوں روتے رہے۔ پھر فقیرا نے اپنے آنسو پونچھے اور گھسیٹے کو ڈھارس دلائی کہ ’’اب نہ رو، یہ تو خوشی کی بات ہے کہ تم گھر آگئے۔ اماں کو دیکھو گے؟‘‘ 

گھٹےھے کی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ 

’’اماں!— ہے کیا؟‘‘ 

’’ہاں۔‘‘ 

چھپر کے ایک کونے میں چڑھؤ وں کا ڈھیر لگا تھا۔ فقیرا اس کی طرف انگلی اٹھا کر بولا: ’’وہ پڑی ہے۔‘‘ 

گھٹے ک محبت اور اشتیاق کے جوش میں ادھر بھاگا۔ 

یہاں چڑتسیوں کے انبار میں دفن ایک انسانی پنجر پڑا تھا جس پر مرجھائی ہوئی بدرنگ گندی کھال ڈھیلے کپڑوں کی طرف جھول رہی تھی۔ سر کے بال بیمار بکری کے دم کے نیچے کے بالوں کی طرح میل کچیل میں لتھڑ کر نمدے کی طرح جم گئے تھے۔ آنکھیں دھول میں سوندی کوڑیوں کی طرح بے رنگ ویران حلقوں میں ڈگر ڈگر کر رہی تھیں۔ ان کے کوے کیچڑ اور آنسوؤں میں لت پت تھے۔ گال کی جگہ ایک پتلی سی کھال رہ گئی تھی جو دانتوں کے غائب ہونے سے کئ تہوں میں ہوکر جبڑوں کے نیچے آگئی تھی۔ گال کے اوپر کی ہڈیوں پر کچھ پھولاپن سا تھا، بدگوشت ہو یا ورم! جیسے روتے روتے ورم آگیا ہو۔ گردن اتنی سوکھی تھی کہ ایک ایک رگ نظر آرہی تھی۔ ننگے سینے پر چھاتیاں لٹک رہی تھیں جیسے بھنچی ہوئی الٹی بنڈی کی خالی جیبیں۔ چہرے کی ایک ایک جھری سخت گھناؤنی مصیبتوں کی مہر تھی جسے دیکھ کر بے اختیار ڈھاڑیں مار مار کررونے کو جی چاہتا تھا۔ 

فقیرا چراغ لے کر آیا۔ روشنی دیکھتے ہی بڑھیا کچھ بکنے لگی۔ اور داہنے ہاتھ کی انگلیوں سے جھوٹ موٹ کا نوالہ بنا کر اپنے منہ کی طرف بار بار لے جانے لگی۔ جیسے گونگا کھانے کو مانگے۔ بڑھیا نہ معلوم کیا کہہ رہی تھی مگر سننے میں صرف یہ آیا تھا— باب ۔ باب۔ باب باب۔ 

اس کی آواز ایسے ویرانی کے مارے گاؤں کی یاد تازہ کرتی، جہاں کے رہنے والے آگ سے جل مرے تھے اور اب اس کے کھنڈروں میں دن کو بندر چیختے اور رات کو سیار روتے تھے۔ 

فقیرا نے گھٹےیس کی طرف دیکھ کر کہا : ’’جب اس کے پاس آؤ یہ اسی طرح کھانا مانگنے لگتی ہے۔ چاہے جتنا کھلاؤ اس کا جی نہیں بھرتا۔ منہ سے نکل نکل پڑتا ہے، پھر بھی مانگے جاتی ہے۔‘‘ 

آخر گھیسٹے بڑی کوشش سے بولا۔ ’’اماں۔‘‘ 

آواز بتا رہی تھی کہ اس کا دل اندر ہی اندر کراہ رہا تھا۔ 

فقیرا نے کہا، ’’نہ وہ سنتی ہے نہ سمجھتی ہے۔ بس کھانے کی بات سمجھتی ہے۔‘‘ 

بڑھیا کا پوپلا منہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا، باب کی آواز نکل رہی تھی، اور انگلیوں کا بنا ہوا نوالہ بار بار منہ کی طرف جارہا تھا مگر ان حرکتوں پر بھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ پنرا زندہ ہے۔ 

یہ وہی چوڑی چکلی تندرست اماں تھی جو منہ اندھیرے سے دوپہر تک مسلسل چکی پیسا کرتی تھی! جسے دن رات یہی دھن سوار رہتی تھی کہ کسی طرح گھر کی حالت سنبھل جائے۔ اس نے کیسا کیسا اپنا جی مارا۔ ذرا ذرا سی چیز کے لئے کیسا کیسا ترستی رہی۔ 

گھٹےکے کے دل میں ماں کے لئے ترس بھرا پیار ابل پڑا جو ہاتھ پھیلا پھیلا کر یہ دعا مانگنے لگا کہ اے خدا اس کی مشکل آسان کر اور اب تو اسے ناپاک دنیا سے اٹھالے۔ اگر اس وقت گھٹے پ کی آنکھیں رودیتیں تو اسے سکون مل جاتا، مگر افسوس آنسوؤں جیسی نعمت کوسوں دور تھی۔ 

فقیرا کے لئے اس نظارے میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ اس نے کہا —’’بھیا! تم ذرا ہاتھ منہ دھولو۔ میں کھانے پینے کا کچھ سبیتا کروں۔‘‘ 

فقیرا بھاگتا ہوا بغیا کے اس پار جوگیوں کے گھر سے آدھ سیر جوار کا آٹا ادھار مانگ لایا اور پھر چولھا جلا کر روٹیاں پکانے بیٹھ گیا۔ گھسیٹے بھی چولھے کے پاس آبیٹھا اور بولا: ’’اتنا آٹا؟ کاچ تم نے ابھی نہیں کھایا؟‘‘ 

’’نہیں ، آج آٹا ختم ہوگیا تھا تو میں نے کہا کہ ایک رات یوں ہی سہی۔‘‘ 

’’اب کھیتی نہیں ہوتی؟‘‘ 

’’وہ کب کی بند ہوگئی۔ ابا کے مرنے کے بعد بھورے کو جیل ہوگئی۔ میں اکیلا رہ گیا۔ دوبرس تک ترکاریاں اور کاریاں بوئیں مگر وہ بکیں بکائیں نہیں۔ لگان تک نہیں ادا ہوا۔‘‘ 

’’بھورے کا ہے میں پکڑا گیا؟‘‘ 

’’سونی چند کی ایک بکری بیچ لی تھی۔ پھر جب جیل سے چھوٹ کر یہاں آیا تو اس کی بیوی دوسرے کے گھر بیٹھ چکی تھی۔ یہ فوجداری کرنے پر تیار ہوگیا۔ مگر اس کی طرف سے کوئی کاہے کو کھڑا ہوتا؟ دو مہینے سب کو گالیاں دیتا رہا۔ پھر ایک رات کہنے لگا۔ ’فقیرا! مجھ سے تو اب تیری طرح نہ بھوکوں مرا جائے گا اور نہ اس گاؤں میں رہا جائے گا۔ بلا سے جیل ہوجائے چار دن، عیس تو کرلیں گے—دوسرے دن منہ اندھیرے کہیں نکل گیا— بانکے کہتا تھا کہ اب پھر جیل پہنچ گیا ہے۔‘‘ 

’’جمیا اور شبراتن کہاں ہیں؟‘‘ 

’’جمیا حرام زادی کسی کے ساتھ بھاگ گئی۔ شبراتن کا دس کوس پر تکیہ والوں میں بیاہ ہوگیا ہے۔ ایک امرود کا باغ ہے کسی طرح گذر بسر ہوجاتی ہے۔ مگر کبھی ماں کو نہیں پوچھتی۔‘‘ 

ذرا دیر خاموشی رہی۔ پھر فقیرا روٹی کے کناروں کو انگاروں پر سینکتے ہوئے بولا: ’’تمہارے جانے کے بعد بھیا وہ آفتیں آئیں۔ سب گھر مٹ گیا۔ وہ بھی کیا جمانا، تھا ابا کہا کرتے تھے کہ’’یہ سب پلے پیٹ بھرے میں پیٹ بھرے۔‘‘ سچ کہتے تھے۔ اس زمانے میں تو کوئی رات ایسی نہیں گذری، جب چولھا نہ جلا ہو۔‘‘ 

گھٹےبھ لمبی سی ٹھنڈی سانس بھر کر چپ ہوگیا اور لپکتے کوئلوں کی طرف تکنے لگا جیسے ان میں پرانے دنوں کو ڈھونڈ رہا ہو۔ 

فقیرا نے اس سناٹے کو توڑا، ’’کہاں کہاں رہے گھیسٹے‘‘؟ 

ہم کلکتہ جاکر ایسے پھنسے کہ خط پتر کو بھی چار پیسے نہ بچے۔ گھر یاد کر کر کے کتنی بار رونا آیا۔ بڑی کٹھن گذری وہاں، ملوں کی خاک چھانی، امیدواری میں کام کیا، بھوت گھر میں روئی ڈھوئی، ہفتوں قبض رہتا تھا، چار سال رکشا چلائی، پھر خونچہ لگایا۔ ارے فقیرا بڑا کٹھن ہےکلکتہ میں رہنا۔ جس کے دوچار جاننے والے ہوں اور جس کے پاس لینے دینے کو ذرا پیسہ ہو اس کے لئے تو وہاں سب کچھ ہے۔ لیکن ایسے ویسوں کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ وہاں تو روئے رلائی نہیں آتی تھی۔ مرنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ 

فقیرا نے لال روٹی کپڑے پر رکھ دی اور دونوں ٹکڑے توڑ توڑ کر کھانے لگے۔ 

فقیرا بولا: ’’بھیا ذرا چپکے چپکے کھاؤ، اماں سن لے گی تو چلا چلا کر رات بھر نہ سونے دے گی۔‘‘ 

گھٹےا نے شک اور حیرت سے فقیرا کی طرف دیکھا۔ ’’تم تو کہتے ہو وہ بالکل نہیں سنتی۔‘‘ 

’’ہاں ، مگر نہ جانے کیا بات ہے کہ کھانا کھانے کی آواز سن لیتی ہے اور کھانے کی بو بھی پالیتی ہے، اور پھر باب، باب کرنے لگتی ہے۔‘‘ 

گھٹے ب بجھتے انگاروں کی طرح تکنے لگا۔ اس کا حلق اتنا سوکھ گیا کہ منہ کا نوالا بلا پانی کے گھونٹ کے نہ اتار سکا۔ 

(۳) 

گھٹے۳ب گھر کے دوارے ہونٹوں پر بکری کا مسکاملے، دھوپ میں ننگے بدن بیٹھا، اپنے میلے کرتے کے چلوے چن رہا تھا۔ کئی روز سےہاتھوں، پیروں اور ہونٹوں کو چٹخا دینے والی سرد ہوا کے تیز جھکڑ چل رہے تھے جن میں سیکڑوں میل کا گرد و غبار بھرا تھا جو ناک اور حلق میں گھس رہا تھا۔ کھیتوں کے پودے اور درخت ہوا کی چوٹ کھا کر جھک جاتے تھے اور بے کسی سے اپنے پتے پھڑ پھڑاتے تھے جیسے ہوا سے فریاد کر رہے ہوں کہ اب تو لللہ جان چھوڑ دے۔ کھیتوں میں کسان اپنی چادروں کو بدن پر سمیٹے، ہاتھ پاؤں سکیڑے کندھوں کو آگے جھکائے سو سو کر رہے تھے۔ ہر جگہ اتنی اجاڑ اجاڑ تھی اور ہر چیز اتنی دکھ بھری کہ بے اختیار جی گھبرا گھبرا کر کہتا تھا کہ چلو کہیں بھاگ چلیں۔ 

گھٹے چ دھوپ میں بیٹھا کانپ رہا تھا اور کلکتہ کو یاد کر رہا تھا۔ آنے کے دوسرے ہی دن وہ ٹوٹے پھوٹے ویران چھپر بکریوں کے موت کی کھرھا ند اور اپنی ماں کی باب، باب سے گھبرا گیا تھا۔ دن بھر بھوک بہلانا اور بکریاں چرانا اور رات کو برے کی روکھی سوکھی روٹی اور کبھی کبھی تو رات کو بھی فاقہ پھر یہاں کی سردی! افوہ! بدن ہےکہ کٹا جاتا ہے۔ اوڑھنے کو کہو یا پہننے کو دو آدمیوں کے بیچ میں ایک، سب سے بڑی کوفت یہ کہ جوانی کے پچیس سال کلکتہ میں گنوانے کے بعد گھٹےو کو یہاں کہ کسی چیز سے اب لطف نہ آتا تھا۔ چوپال کی باتیں روکھی پھیکی۔ گاؤں کی عورتوں میں شرم اور کھچاؤ پھر جس سفید پوش کو دیکھو تھانے دار کی طرح اکڑ دکھاتا ہے اور فقیرا؟ وہ تو بات بات میں باپ بنتا ہے۔ سب مصیبتوں سے بڑی مصیبت یہ کہ پیسہ کمانے کا کوئی راستہ نہیں، دمڑی دمڑی کے لئے فقیرا کی محتاجی۔ ہر بات میں اس کا دست نگر رہنا۔ 

گھٹےا چلوے مار رہا تھا اور کلکتہ سے آنے پر پچھتا رہا تھا۔ وہ دکانوں کے تختوں پر رات کاٹنا، وہ سڑکوں پر جو جاڑوں میں برف کی سلی اور گرمیوں میں دہکتا ہوا توا ہوتی تھیں، خچر کی طرح رکشا لے کر دوڑنا۔ وہ کبھی کبھی تین تین فاقے کر لینا۔ اپنے گھر کی اس زندگی سے لاکھ درجہ بہتر تھا۔ وہ کلکتہ کی ایک پیسہ والی سنگل چائے۔ وہ دھیلے والا پان کا بیڑا! وہ پیسے کی پچیس بیڑیاں! یہ وہ نعمتیں تھیں جن کے لئے وہ یہاں ترس گیا تھا۔ 

گھٹےکا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور دور تک پھیلے ہوئے مٹر کے کھیتوں کی طرف دیکھا۔ میری زندگی بھی کیا زندگی رہی ہے۔ پندرہ سولہ برس کے سن تک باپ کے جماےنوں کی مار کھائی۔ کھانے پینے کو ترستے رہے، پھر ہمت کر کے کمانے کھانے کے لئے شہر بھاگے، وہاں مہینوں ٹھوکریں کھائیں، کہا چلو کلکتہ چلو، وہاں پہنچتے ہی اچھی سی نوکری مل جائے گی اور سب پاپ کٹ جائے گا، کلکتہ کے پچیس برس! افوہ! کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی، رکشا تک چلائی، سیٹھ جی نے کہا کہ گاڑی لینا ہے تو، جمانتی لاؤ۔ میں کسے لاتا؟ جو وہاں کے رہنے والے تھے ایک دوسرے کو جانتے تھے، گھرانے کے گھرانے رہتے تھے۔ جمانتی لے آتے تھے۔ لچھمن بولا۔ دو آنے روز دو تو کلوٹا مہاجن جمانتی ہوجائے گا۔ دوآنے روز اسے دیئے، پھر بھی سالے سیٹھ نے ٹوٹی پھوٹی گاڑی دی۔ اسے دور ہی سے دیکھ کر لوگ دور ہٹ جاتے تھے۔ جب سیٹھ سے خوشامد کرو کہ ایک اچھی گاڑی دے دو تو وہ اکڑ کر کہتا تھا کچھ روپیہ جمع کراؤنا۔ روپیہ بچتا تو کیسے بچتا؟ آمدنی بھر تو کلوٹا کھا جاتا تھا۔ چار سال دوڑے مگر رہے وہی موچی کے موچی۔ بخار جو آیا تو کسی طرح گیا ہی نہیں۔ اسپتال میں پڑے پڑے مہینوں بیت گئے، اچھے ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ اب خبردار رکشا نہ چلانا اور نہ زیادہ محنت کا کام کرنا۔ پھر دو روپیہ قرض ادھار کر کے پان سگریٹ، دیا سلائی کا خونچہ لگایا۔ اب جو آتا کہتا سیزرلاؤ، نیبی کٹ لاؤ، یہ لاؤ وہ لاؤ، یہاں کیا تھا؟ کہتے، ’’نہیں ہے صاحب، نہیں ہےہجور۔‘‘ وہ بھی تماشا کچھ دنوں رہا، نہ بیٹھنے کو اچھی جگہ تھی نہ اچھا سامان تھا۔ اس پر جو کچھ بھی آیا حرام زادی بھنگوئی کھاگئی— نہ جانے مجھ سالے کو عورت رکھنے کی کیا پڑی تھی— لنگوٹی میں پھاگ۔ 

گھسیٹے کو اپنے اوپر سخت غصہ آیا اور اپنے کو خوب گالیاں دینے لگا۔ اتنے میں فقیرا سامنے سے آیا اور آتے ہی کڑے پن سے بولا، ’’پھر تم نے چرا کر دودھ بیچ لیا۔ اب ہمارا تمہارا گذر نہیں ہوسکتا۔ جہاں جانا ہو چلے جاؤ۔‘‘ 

گھسیٹے نے جواب دیا،’’کیسی چوری؟ کچھ پاگل ہوگیا ہے تو؟ روز کا یہی قصہ، روز کا یہی قصہ، بڑا آیا ہے گھر سے نکالنے والا۔ جسے گھر میں میرا حصہ ہی نہیں اور بکریوں میں میرا حصہ ہی نہیں۔‘‘ 

’’گھر میں حصہ، بکریوں میں حصہ، تو حصہ بٹائے گا؟ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا۔ پچیس سال کلکتہ میں گنوا کر ہماری جان کو آیا ہے، گیا تھا روپیہ کمانے!‘‘ 

گھسیٹے گرم ہو کر بولا، ’’کلکتہ میں کمانا کچھ آسان ہے؟ تو خود تو زندگی بھر قصبہ سے باہر نہیں گیا اور چلا ہے کلکتہ کی کمائی کی باتیں کرنے۔ وہاں وہ کماتا ہے جس کے دس جاننے والے ہوں جو اس کے لئے تکڑم لگائیں۔ وہ کماتا ہے جس کے پاس روپیہ ہو کہ کچھ کھوکر سیکھے۔ کام کچھ دنوں کے بعد آتا ہے کہ آپ ہی آپ؟‘‘ 

فقیرا نے طعن سے کہا: ’’ہاں جو یہاں سے جاتے ہیں روپے کے ڈھیر تو لے کر جاتے ہی ہیں۔ بلی جو اتنا روپیہ لایا ہے تو کیسے لایا ہے؟‘‘ 

اب تو گھسیٹے تلملا گیا۔ وہ سب کچھ سن سکتا تھا مگر یہ کہ اس نے کلکتہ میں رہ کر کچھ نہیں کیا بالکل ہی نہیں سن سکتا تھا۔ وہ چلا کر بولا: 

’’اور تو نے کیا کر لیا ہے چوٹٹا کہیں کا۔ ان بکریوں میں، اس گھر میں کیا میرا حصہ نہیں تھا؟ سب کا سب بیچ کر کھا گیا۔ لا میرا حصہ دے۔ میں آج ہی اس منحوس گاؤں سے جاتا ہوں۔ بے ایمان کہیں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ 

گھسیٹے سے بن نہیں پڑتا تھا کہ اپنا سر پھوڑ ڈالے یا جان نکال کر رکھ دے۔ کیا کرے جو فقیرا کو یقین دلادے کہ کلکتے میں میں نے کوئی کوشش اٹھا نہیں رکھی۔ 

کچھ یوں ہی تو تو میں میں ہوتی رہی۔ پھر فقیرا بڑ بڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دیر تک وہ اندر سے اور یہ باہر سے بڑبڑاتے رہے۔ 

یہ قصہ آج تک نیا نہیں تھا بلکہ پورے چار مہینے سے ہو رہا تھا۔ روز یہی جھگڑا اٹھتا، روز یہی باتیں ہوتیں اور روز دونوں اسی طرح بڑ بڑا بڑ بڑا کر چپ ہوجاتے۔ 

رات جب روکھی روٹی کھا کر گھسیٹے بستر پر بیٹھ کر حقہ گڑ گڑانے لگا تو پھر ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ کلکتہ کی یاد آئی اور وہ سوچنے لگا کہ شاید اب میں ہمیشہ کے لئے اس اجاڑ گاؤں میں دفن ہوگیا۔ اب باقی زندگی اسی طرح بتانا ہے۔ کاش ایک بار صرف ایک بار میرے پاس کچھ پیسہ آجاتا جو میں کچھ دنوں اپنی تھکی ماندی آتما کو سکھ دے لیتا۔ چالیس برس کی تھکی ماندی آتما! میں یہ نہیں کہتا کہ بڑا سا گھر ہو، دوارے بھینس بندھی ہو، کٹھیوں میں اناج بھرا ہو۔ گھر والی ہو جو ساری کے پلو سے تھالی صاف کرے، اس میں دال بھات لاکر سامنے رکھ دے، اس کے پاؤں میں موٹے موٹے کڑے پڑے ہوں جو بدھی کی طرح آڑے آڑے ایک طرف جھکے ہوں جیسے شرمائی سالی کا سر۔ بس مجھے تو بس اتنا مل جائے کہ اپنا ایک الگ چھپر ہو، دونوں وقت اپنی روکھی سوکھی ہو۔ بس ارے ہاں اپنے پاس کچھ تو ہو۔ اب کہاں گھر والی کی خواہش اور کہاں بچوں کا ارمان۔ چالیس کا سن ہونے کو آیا۔ 

سن کا خیال آتے ہی دل میں ایک تیز ہوک اٹھی کہ اب دوچار برس جوانی اور ہے پھر اندھیرا پاکھ۔ جانے کب موت آجائے۔ 

ایک زبردست امنگ اٹھی کہ جیسے بنے ایک بار اور ہاتھ پاؤں مارو۔ تھوڑی دیر تک سوچتا رہا۔ پھر اس نے فقیرا کو پکارا، ’’بھیا فقیرا!‘‘ 

فقیرا پیار کی پکار سن کر فوراً پاس آگیا۔ جب وہ آرام سے بیٹھ گیا اور حقہ کا ایک دم لے چکا تو گھسیٹے بولا: ’’میں یہ کب کہتا ہوں کہ میں کچھ کروں گا ہی نہیں۔ مگر کوئی کام بھی تو ایسا ہو کہ جس سے کچھ ملے۔ ارے بھیا تم کہتے ہو کہ کلکتہ میں میں نے پچیس برس بھاڑ جھونکا، مگر میں کہتا ہوں کہ میں کم سے کم اتنا تو سیکھ ہی گیا ہوں کہ کون کام چل سکتا ہے اور کون نہیں۔ تم کہتے ہو پھیری لگائیں، یہ کریں وہ کریں، سچ کہتا ہوں کہ ان میں کچھ نہیں دھرا ہے۔ پیسے والوں کے سامنے کون اپنا روزگار جماسکتا ہے؟‘‘ 

گھسیٹے یہ کہہ کر اس طرح خاموش ہوگیا جیسے ابھی بات نہیں ہوئی۔ پھر فقیراکی طرف دیکھ کر بولا: ’’اگر کچھ مل سکتا ہے تو اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں۔ مگر جو ہم کہتے ہیں—وہ تو تم مانتے ہی نہیں— اس میں تمہارا بھی بھلا، ہمارا بھی بھلا۔ کون جانے گا کہ ہم کیسے کماتے ہیں؟ اور جان بھی گیا تو کیا؟ جب ہمارے پاس پیسے ہوں گے تو سب ہماری برائی کو بھی اچھائی کہیں گے۔ جوگیوں کو دیکھو، ان کے گھرہن برس رہا ہے ہن۔ کہنے کو ہم شریف اور وہ رذیل۔ مگر کون کس کی خوشامد کرتا ہے؟ ہم ہی ہیں جو آئے دن دوڑے جاتے ہیں کہ اچھے منگلو سیر بھر آٹا ادھار دے دو، دو کنکڑیاں نمک دے دو، ذرا سی تمباکو دے دو۔ وہ ٹال مٹول بھی کرتے ہیں، دھتکار بھی دیتے ہیں، مگر ہم پھر جاتے ہیں نہ جائیں تو کریں کیا؟‘‘ 

فقیرا بیٹھا چپ چاپ سنتا رہا، گھسیٹے دم لے کر پھر کہنے لگا: ’’اور ہم تو کہتے ہیں کہ سب ہم کو چھوڑ بھی دیں تو کیا؟ کیا کوئی لڑکا لڑکی بیاہنے کو بیٹھے ہیں ہم؟ ہم دونوں چین سے الگ ہی رہ لیں گے۔‘‘ 

گھسیٹے نے اکدم سے کچھ یاد کر کے فقیرا کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور پھر کہا: 

’’ہاں تمہارا سادی بیاہ کرنا ہے روپیہ دیکھ کر سب ہی لڑکی دینے کو راضی ہوجاتے ہیں اور نہیں تو پھر اپنی برادری میں نہ سہی کسی اور میں سہی۔ ارے ہاں! اس طرح تو کہیں بھی نہیں کرسکتے اور پھر یہ اماں کے لئے بھی اچھا ہے۔ جب پیسے ہوں گے تو ان کو بھی خوب کھانے کو ملے گا۔‘‘ 

فقیرا اب بھی کچھ نہیں بولا۔ اس سے پہلے بھی گھسیٹے کئی بار یہی باتیں کر چکا تھا۔ مگر تب انھیں سن کر فقیرا کو غصہ آگیا تھا۔ روپیہ کے لئے کہیں شرافت بیچی جاتی ہے؟ روپیہ ہے کیا؟ ہاتھ کا میل۔ آج آیا تو کل گیا۔ اور شرافت وہ دھن ہے جو پیڑھیوں چلتا ہے اورخرچ نہیں ہوتا ہے۔ شریف پھول کا برتن ہے جتنا بھی کیچڑ میں سوند جائے، جب بھی مانجھو چم چم کرنے لگتا ہے اور جہاں شرافت گئی پھر آدمی مٹی ہوجاتا ہے مٹی۔ مانا جوگیوں کے پاس روپیہ ہے، پیسہ ہے، گھر گر ہستی ہے، ہم ہی ان کی خوشامد کرتے ہیں وہ نہیں کرتے، ہم ہی ان سے روٹی ادھار مانگتے ہیں، وہ نہیں۔ مگر اس سے کیا؟ ہاتھی لاکھ لٹ جائے پھر بھی سوالاکھ ٹکے کا۔ ہم اور وہ مکھیا کے گھر جائیں تو ہم تو چبوترے پر بیٹھیں گے اور وہ دور زمین پر۔ 

فقیرا پانچ برس کا تھا جب گھسیٹے روپیہ کمانے شہر بھاگ گیا تھا، تب سے اس کے دل میں بھی کمانے کی تمنا پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن جیسے جیسے دن بیتتے گئے اور گھسیٹے روپیہ کا گٹھر لے کر نہیں لوٹا، اس کی خواہش مرتی گئی۔ غریبوں کو کہاں پیسہ ملتا ہے۔ پیسہ مل جاتا تو کوئی غریب ہی کیوں رہتا؟ اس جیون میں بس یہی ہے کہ اپنا دوزخ پا ٹ لو اور موقع ملے تو کسی سے ہنسی، دل لگی کر لو، اور کیا دھرا ہے؟ بھورے کا حشر دیکھ کر تو رہی سہی آس بھی گہری نیند سوگئی۔ لیکن اب جو گھسیٹے روزانہ شام کو، جب یہ دونوں کام کاج سے فارغ ہو کر بیٹھتے، آس جگانے کا یہ منتر اسی موہنی سے پڑھتا رہا تو رفتہ رفتہ فقیرا کی سوئی ہوئی آس چونکی، انگڑائی لے کر اٹھی اور پر پرزے نکالنے لگی۔ وہی فقیرا جسے کل تک کی کوئی فکر نہ تھی، آج جو مایا کے مندر کی راہ سوجھائی دی تو لگا کچھ اور ہی سپنے دیکھنے، ذرا یہ چھپر بدل جاتا، تھوڑی سی بکریاں اور ہوجاتیں اور ذرا چار پانچ روپےاکٹھے ہوجاتے تو پھر ہمارا گھر بس جاتا، ارے ہاں اب گھر نہ بسا تو پھر کب بسے گا، وہ رمضانی کی بیوہ، آنکھ ملاؤ تو کیسا ہنستی ہے، اس سے آج کہو تو آج گھر بیٹھ جائے، کیسا گدرایا بدن ہے۔جیسے پکا آم۔ کیسا ٹھمک ٹھمک چلتی ہے! اور کتنی محنتی ہے وہ۔ دودھ وہ دوہے، او پلے وہ تھاپے، دہی وہ متھے، اکیلی جھوؤں پانس اٹھا اٹھا کر کھیتوں میں وہ ڈالے، کیا عورت ہے! میں نے دیر کی تو کوئی اور اپنے گھر بٹھالے گا پھر میں منہ تکتا رہ جاؤں گا۔ 

جس دن سے فقیرا کے دل میں یہ خیالات گونجنے لگے، وہ رمضان کی بیوہ سے کنائی کاٹنے لگا۔ ادھر وہ سامنے دکھائی دیتی اور یہ راہ کترا کر نکل جاتا۔ پندرہ بیس روز یوں ہی کٹ گئے۔ ایک دن یہ لکڑی چیر رہا تھا کہ وہ اکبارگی پیچھے سے آگئی۔ اسے بھاگتے نہ بنی، کچھ باتیں ہوئیں، کچھ ہنسی دل لگی ہوئی، پھر وہی جس کا فقیرا کو دھڑکا تھا یعنی اسی دن اس نے گھسیٹے کی بات مان لی۔ 

(۴) 

ابھی پہر رات باقی تھی کہ گھسیٹے نے فقیرا کو جگایا۔ دونوں تاروں کی مدھم روشنی میں اٹھے اور ایک ٹوکرے کو بانس سے لٹکا کر ایک ڈولی سی بنا لی اور اس میں خوب سا پیال بھر دیا اور پھر بڑھیا کے پاس گئے۔ گھسیٹے نے ایک ہاتھ گلے میں اور ایک کمر میں ڈال کر اس کو چھپکلی کی طرح اٹھا لیا۔ آنکھ کا کھلنا تھا کہ وہ لگی باب،باب، باب کر کے اشارے سے کھانا مانگنے، گھسیٹے نے پہلی بار اسے چھوا تھا۔ اسے ایک عجیب اذیت ہوئی جس سے اس کا چہرہ عجب ہونق ہوگیا۔ ایک طرف تو آنکھوں میں آنسو آرہے تھے اور دوسری طرف بدن کے روئیں کھڑے ہوگئے تھے۔ 

گھسیٹے نے اسے لے جاکر آہستہ سے جیسے کوئی شیشے کا برتن ہو، ٹوکرے میں رکھ دیا اور پھر اسے چیتھڑوں میں چھپا دیا۔ 

ایک طرف کا بانس فقیرا نے تھاما اور دوسری طرف کا گھسیٹے نے اور دونوں گھر کے باہر چلے۔ بکریاں ان لوگوں کو جاتے دیکھ کر بے کسی سے میں میں کرنے لگیں۔ جیسے یہ لوگ ان کو ہمیشہ کے لئے بے یارو مددگار چھوڑے جارہے ہوں۔ 

جب یہ دونوں رات کے کالے کالے پردوں کی اوٹ میں منہ چھپائے ہوئےگاؤں کے نکڑ پر آگئے تو پوپھٹی اور نسیم اٹھلا اٹھلا کر چلنے لگی۔ یہ خوش تھے کہ چلو ہم نظروں سے بچ کر نکل آئے کہ اچانک ایک طرف سے ایک کسان کندھے پر ہل رکھے نکل پڑا اور پہچان کر پوچھنے لگا:’’کہاں چلے فقیرا؟‘‘ 

ہوا کا ٹھنڈا جھونکا فقیرا کے کلیجے کو برماتا نکل گیا۔ اس کے کندھے کا بانس کانپا۔ کسی وجہ سے گھسیٹے گھبرا کر فقیرا کی جگہ خود بول اٹھا:’’شبراتن کا حال خراب ہے۔ اماں کو لئے وہاں جارہے ہیں۔‘‘ 

’’اماں کو لئے؟‘‘ کسان اتنا متاثر ہوا کہ بے اختیار کہہ اٹھا۔ 

’’شاباش تم لوگوں کو—اپنی مہتاری کی اتنی سیوا کرتے ہو!‘‘ 

شہر کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کا خطبہ شروع ہو چکا تھا، اس وقت فقیرا اور گھسیٹے نے مسجد سے ذرا ہٹ کر، ایک گلی میں آکر ڈولی رکھی گھسیٹے نے بڑھیا کو جو کنڈلی مارے ٹوکرے میں سو رہی تھی، اٹھا کر ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور پھر اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ کو ٹوکرے میں دو چیتھڑے باندھ کر اس پر رکھ دیا۔ یہ احتیاط تھی اس بات کی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ باب باب کرتے وقت کہیں ہاتھ بجائے منہ کی طرف آنے کا کانپ کر کسی اور طرف نکل جائے۔ مگر احتیاط فضول تھی کیونکہ دس برس سے اس ہاتھ کا صرف یہی کام رہ گیا تھا کہ منہ کی طرف جا جا کر اشارے سے کھانا مانگا کرے اب سوائے ادھر کے اور کسی طرف جانے کی ہاتھ میں سکت ہی نہ تھی۔ 

بڑھیا جاگ پڑی مگر وہ ہچکولے کھاتے کھاتے اور رات رہے سے اس وقت تک باب باب کرتے کرتے اتنی تھک گئی تھی کہ بلا چلائے اور کھانا مانگے، جیسے بٹھائی گئی تھی ویسی ہی بیٹھی رہی۔ یہ تو بری رہی۔ سارے کیے کرائے پر پانی پھرا جاتا تھا، ضرورت ایجاد کی ماں ہے، فوراً گھسیٹے نے لپک کر سامنے کی حلوائی کی دکان سے ایک پیسہ کا جلیبیوں کا شیرا مانگا۔ اس نے تھال پر چمٹی ہوئی بھڑوں اور بھنکتی ہوئی مکھیوں کو اڑا کر تھا ل ایک طرف جھکا دیا اور جتنا شیرا بہہ آیا اسے انگلی سے پونچھ پانچھ کر ایک پتہ پر ٹپکا کر گھسیٹے کو تھما دیا۔ اس نے لاکر شیرے کی ایک انگلی بڑھیا کو چٹادی۔ اس کا چٹانا تھا کہ وہ فوراً باب باب کر کے اور مانگنے لگی۔ 

چلو عمل کامیاب رہا۔ بڑھیا کی کوک ہاتھ آگئی۔ گھسیٹے نے پتہ فقیرے کو پکڑا کر ہدایت کی کہ موقع پر بڑھیا کو ایک انگلی چٹا دینا۔ فقیرا زندگی میں تیسری بار شہر آیا تھا۔ یہاں کی گہماگہمی، بھیڑ بھاڑ اور بڑی بڑی دکانوں سے وہ بھونچکا ہوگیا تھا، عقل چندھیا گئی تھی اس کے برخلاف شہر کی ہوا لگتے ہی گھسیٹے کی ہر بات میں خود اعتمادی آگئی تھی۔ گھسیٹے مشتاق پیراک کی طرح تھا جو دریا میں اترتے ہی چہلیں کرنے لگتا ہے اور فقیرا نو سکھیئے کی طرح جو پانی دیکھ دیکھ کر سہما جاتا ہے، گھسیٹے فقیرے کو حکم دے رہا تھا اور وہ کل کی طرح اس کے اشاروں پر چل رہا تھا۔ 

دونوں ڈولی لے کر مسجد کے سامنے آئے۔ خدا کے گھر کے سامنے انسانی کوڑےکا ڈھیر لگا تھا۔ کئی انگلیاں اور بیٹھی ناک والے کوڑھی۔ منمنا کر ڈراؤنی آواز میں بولنے والی آتشکی بڑھیاں، چندے چپڑے بچے جن کے ہاتھ پاؤں سوکھے اور پیٹ بڑھے ہوئے تھے، جو نہ جانے کیوں مسلسل ریں ریں کر رہے تھے، پھیکے، بے حیا دیدوں والی جوان عورتیں جن کے سر پر جوڑوں کا جنگل اور بدن پر میل کی کہگل، چیتھڑے، ٹھیکرے، میل، آخور، بلغم، ناک، پیپ، مکھیاں، جراثیم، فریب، جھوٹ، اور ان سب کو ڈھانک دینے والی، لوریاں دے دے کر، تھپک تھپک کر سلا دینے والی مہا پاپن بے حسی! 

اس سمندر میں گھسیٹے اور فقیرا نے بھی ماں کی ڈولی لے کر غوطہ مارا۔ میل کچیل ہو، چاہے ذلت ہو، حیوانیت ہو، چاہے انسانیت ہو، مایا کے مندر کو یہی راستہ جاتا ہے۔ اس وقت جب کہ سب دروازے بند ہو چکے ہیں۔ اکیلا یہ کھلا ہوا ہے۔ صاف اور سیدھا راستہ، تنہا راستہ، پھوٹی آنکھ کا دیدہ۔ 

ڈولی رکھی ہی تھی کہ پاس کے ایک بڈھے فقیر نے ماں کی گالی دے کر کہا:’’ابے ادھر کہاں آیا؟بھاگ یہاں سے۔‘‘ 

پھر تو آس پاس کے سب فقیر گالیاں دینے اور غل مچانے لگے۔ کیونکہ ان کی ڈولی دیکھ کر ہر ایک کو اپنی روزی کی پڑگئی۔ فقیرا کی تو یہ ہنگامہ دیکھ کر جان ہی نکل گئی۔ اس نے جھٹ ڈولی کا ڈنڈا کاندھے پر رکھ وہاں سے ٹلنا چاہا مگر گھسیٹے نے دیکھا کہ ان گیدڑ بھپکیوں سے اگر دبا تو پھر اس برادری میں گھس چکا۔ اس نے دوچار ماں بہن کی سنا کر کہا:’’تمہارے باپ کی زمین ہے۔ چپ رہو، ورنہ سب کے سر پھوڑدوں گا۔‘‘ 

ڈانٹ سنتے ہی فقیر تو ذرا ذرا بڑبڑا کر چپ ہوگئے مگر بڑھیاں اسی طرح کائیں کائیں کرتی رہیں۔ آخر ایک نمازی نے جو جماعت کے لالچ میں دوڑا جارہا تھا، ان کو ڈانٹا:’’چپ رہو بدنصیبو نماز ہو رہی ہے۔‘‘ 

نماز کے خیال سے یا ڈانٹ کے ڈر سے، کسی نہ کسی وجہ سے خاموشی ہوگئی۔ اگر کوئی بات نہ ہوتی تو بھی خاموشی ہوجاتی۔ کیونکہ اس سے زیادہ احتجاج کرنے کا بوتا ان لوگوں میں تھا ہی نہیں اور دوسرے گھسیٹے بھی اب جگہ پر پورا قبضہ پاچکا تھا۔ 

ابھی نمازی نکلنا نہیں شروع ہوئے تھے۔ لیکن وہاں کی فضا سے فقیرا ایسا متاثر ہوا کہ اس نے بے سمجھے بوجھے بڑھیا کو ایک انگلی شیرا چٹا دیا۔ شیرا لگتے ہی گرامو فون کے ریکارڈ کی طرح وہ بجنے لگی اور مشین کی طرح اس کے جبڑے اور ہاتھ چلنے لگے۔ اسے دیکھ کر ایک دو برس کے بچے نے جسے ایک شخص پھونک ڈلوانے کو لایا تھا، گود میں سہم کر زور سے چیخ ماری اور بسورنے لگا۔ ایک جوان اینگلو انڈین لڑکی ہاتھ میں بٹوا لئے ادھر سے گذر رہی تھی۔ اس نے جو بڑھیا کو دیکھا تو ایک بار سر سے پاؤں تک کانپ گئی۔، جیسے ایسا ہی بھیانک بڑھاپا اس کا پیچھا کر رہا ہو۔اس نے بے تحاشا دو پیسے نکال کر بڑھیا کے آگے پھینک دیے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی بوڑھے کتے کے سامنے تر نوالہ پھینک دیتا ہے کہ وہ ہمیں بھول کر اس میں جٹ جائے۔ پیسے بڑھیا کے سامنے لگے ہوئے چیتھڑوں کے انبار میں ڈوب کر غائب ہوگئے۔ اب گھسیٹے کو اپنی ایک غلطی کا احساس ہوا۔ بھیک کوئی اس کے ہاتھ میں تھوڑی دے گا، دے گا بڑھیا کو، اس کے سامنے کوئی چادر ہونی چاہیئے جس پر آکر پیسے گریں۔ گھسیٹے نے جلدی سے اپنا انگوچاے بڑھیا کی گود میں پھیلا دیا۔ 

نماز ختم ہوئی اور نمازی غول کے غول باہر نکلنے لگے۔ فقیروں نے شور مچانا شروع کردیا۔ بھوکا ہوں بابا، بھوکا ہوں بابا، ایک فقیرنی گھگھیانے لگی جیسے کوئی نئی نویلی بیوہ سسکیاں بھرتی ہو۔ ایک تگڑا فقیر حلق پھاڑ پھاڑ کر آوازیں لگانے لگا،’’جب دے گا اللہ ہی دے گا۔‘‘ فقیرا بھیڑ بھاڑ، دھم دھکا اور شور ہنگامے سے ایسا بھونچکا ہوا کہ منہ پھیلا کر ایک طرف تکنے لگا اور شیرا چٹانا بھول گیا۔ گھسیٹے نے چلا چلا کر اسے کئی بار حکم دیا مگر جب دیکھا کہ اس کے حواس بالکل غائب ہیں تو جلدی سے پتہ چھین کر خود ہی چٹا دیا۔ شیرے کا لگنا تھا کہ مشین پھر تیزی سے چلنے لگی۔ مگر پھر بھی لوگ ادھر متوجہ نہیں ہوئے۔ گھسیٹے نے فوراً محسوس کیا کہ کیا کمی ہے۔ پہلے سے اس نے کوئی صدا تو سوچی نہیں تھی۔ جلدی میں اس کے منہ سے نکلا۔ ’’اللہ ہر آفت سے بچائے۔‘‘ اس صدا کو اس طرح دینے لگا، جیسے کوئی والنٹیر، انقلاب زندہ باد، کہے، کیونکہ دوسری لے اسے یاد ہی نہ آئی۔ اس کی صدا میں اگر تاثیر تھی تو صرف اتنی کہ لوگ ادھر دیکھ لیتے تھے، دیکھتے ہی بڑھیا پر نگاہ پڑجاتی تھی۔ یہ درد انگیز نظارہ دل کو ویرانی اور وحشت سے بھر دیتا تھا جس کی دوا صرف بھیک کے چند پیسے تھے۔ بڑھیا کے سامنے پیسوں کی بارش ہونے لگی۔ آس پاس کے فقیر یا تو خالی ہاتھ یا ایک ایک دو دو پیسے لئے حسرت سے ان دونوں نصیبوں کو تک رہے تھے اور دل ہی دل میں کڑھ رہے تھے کہ ہمارے پاس بھی کوئی ایسی ہی بڑھیا چیز کیوں نہیں ہے۔ گھسیٹے اپنی اتنی کامیابی دیکھ کر خوشی اور غرور سے متوالا ہوگیا۔ اور خوب کڑک کر صدا لگانے لگا۔ آج زندگی میں پہلا دن تھا کہ جس پیشے میں وہ گھسا تھا اس میں چوٹی پر جگہ ملی تھی۔ حسرت رہی کہ کبھی ایسا ہوتا کہ جس پیشے میں گھسوں اس کا اچھا سامان، اس کا سب اونچ نیچ معلوم ہو مگر آخر آج دونوں نعمتیں میسر آہی گئیں۔ میرے پاس جو سامنے ہے وہ کسی کے پاس نہیں اور میں صدا بھی کیا خوب لگا رہا ہوں۔ سب خدا کی دین ہے۔ آخر وہ کب تک اپنے بندے کا امتحان لیتا۔ دیکھو پیسے کیسے برس رہے ہیں! تو ہی داتا ہے اور تو ہی جیون کا کھیون ہار ہے مالک۔ اماں زندگی بھر کوشش کر مریں کہ کچھ پیسہ جوڑ کر گھر کی حالت سدھاریں۔ ایک ایک بات کے پیچھے جان دے مریں مگر کچھ نہ ہوا اور اب ہوا بھی تو کیسی آسانی سے یہ خدا کے کارخانے ہیں۔ حیلے روزی بہانے موت۔ 

سہ پہر کی سنہری دھوپ میں گھسیٹے اور فقیرا ڈولی لئے شہر کے باہر ایک شاہی کھنڈر کے پاس آئے۔ دونوں سارا دن ڈولی لادے لادے پھیری لگاتے رہے تھے، تکان سے چور چور تھے مگر پھر بھی آنکھوں میں اطمینان اور خوشی موجیں مار رہی تھی۔ مست تھے، گارہے تھے اور زور زور سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ 

ایک کھنڈر کے سایہ میں ڈولی اتار دی گئی۔ گھسیٹے نے بھیک کی جھولی کھولی۔ اس میں پانچ چھ آدمیوں کے کھانے بھر روٹیوں کے ٹکڑے، دال بھات اور ترکاریاں ملی جلی بھری تھیں۔ ان پر ایک نظرڈال کر ماں کی گالی دے کرایک طرف پھینک دیا۔ پھر ذرا اطمینان سے بیٹھ کر ایک پوٹلی کھولی جس میں تھی بہت سی تیل کی پوریاں، کئی قسم کی ترکاریاں، سیر بھر پچ میل مٹھائی، چٹ پٹے کباب، مولیاں اور بیڑی کا بنڈل۔ آج کے پھیرے میں پونے دو روپئے ملے تھے۔ جس میں سے ڈیڑھ کی یہ سب خریداری تھی اور چار آنے ابھی گھسیٹے کی جیب میں اچھل رہے تھے۔ گھسیٹے نے سب نعمتیں نکال کر سامنے یہاں سے وہاں چن دیں۔ سب ملا کر چار آدمیوں بھر کھانا تھا۔ دونوں کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ سامنے نعمتوں کا ڈھیر تھا۔ جس طرح چاہے کھاؤ اور جو چاہے پھینکو۔ پہلے دونوں نے مٹھائی کی ایک ایک ڈلی منہ میں ڈالی اور بدحواسی سے ان کو نگل گئے پھر مربھکوں کی طرح مٹھائی پر ٹوٹ پڑے۔ گویا زندگی بھر کی بھوک۔ اسی ایک آن میں بجھا دیں گے۔ پوریوں کی باری آئی، ایک ایک پوری کا ایک ایک نوالہ۔ کس کس کر دو چار دانت مارتے اور پھر غپ سے دوزخ میں اتار لیتے۔ اس شور سے بڑھیا جو سو رہی تھی جاگ پڑی اور جاگتے ہی کھانا مانگنے لگی۔ اب ان دونوں کو وہ بھی یاد آئی۔ گھسیٹے اس کی طرف پیار سے دیکھ کر ہنسا اور اسے اٹھا کر ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔ 

’’لو آج تم بھی مزیدار چیزیں کھالو۔کبھی کاہے کو کھا ئی ہونگی۔‘‘ 

گھسیٹے نے کچھ نکتیاں اس کے منہ میں دے دیں۔ وہ جلدی سے ان کو نگل گئی اور نگلتے ہی بدحواسی سے باب باب کرنے لگی۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ہاتھوں پیروں کو ہلا جلا کر آگے سرک آئی۔ گویا کہ چاہتی تھی ایک جھپٹا مار کر سب کچھ ایک ہی دفعہ اپنے منہ میں بھرلے۔ فقیرا اور گھسیٹے کے لئے دشواری یہ تھی کہ خود کھائیں یا اسے کھلائیں۔ ادھر اس کے منہ میں کچھ دیتے اور ادھر وہ نگل کر مانگنے لگتی— گھسیٹے جھلا کر بولا—’’لو تم بھی کیا یاد کروگی۔‘‘ 

دانت سے کاٹ کر مولی کا ایک ٹکڑا بڑھیا کے منہ میں دے دیا۔ بڑھیافوراً خوش خوش اسے چبانے لگی مگر چبتا کیا وہ بار بار منہ سے نکل آتا اور پھر کسی نہ کسی طرح کانپتے ہاتھوں سے اسے اندر ٹھیل لیتی۔ 

دونوں پھر اپنا پیٹ پاٹنے میں جٹ گئے۔ ذرا دیر میں بڑھیا کھانسی۔ اس کے حلق میں ٹکڑا پھنس گیا تھا۔ آنکھیں چڑھ گئیں اور آگے پیچھے جھوم جھوم کر سوں سوں کرنے لگی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اب دم نکلا اور تب دم نکلا۔ گھسیٹے اسے مرتے دیکھ کر کھانا بھول گیا اور جلدی سے انگلی ڈال کر اس کے حلق سے ٹکڑا نکال لیا۔ نکلتے ہی بڑھیا نے ایک چیخ ماری جیسے کسی نے اس کا خزانہ لوٹ لیا ہو اور حلق پھاڑ پھاڑ اسے پھر مانگنے لگی۔ اب گھسیٹے نے اسے مشغول رکھنے کو ہاتھ میں ایک رس گلا پکڑا دیا۔بڑھیا نے اسے اپنی مٹھی میں زور سے دبا لیا اور منہ کی طرف لے چلی۔ مگر ایک تو ہاتھ کانپ رہا تھا اور دوسرے رس گلے کی پکڑ بے تکی تھی، وہ کسی طرح منہ کے اندر نہ جاسکا۔ رس گلا دب رہا تھا۔ اس کا شیرا ٹھڈی باچھوں سے ہوتا ہوا گلے پر اور گلے سے چھاتیوں میں بہہ رہا تھا۔ بڑھیا ساری کی ساری میٹھی ہوگئی تھی۔ 

ماں اور بیٹے کھاتے چلے جاتے تھے۔ نہ یہ تھکتی تھی اور نہ وہ۔ رفتہ رفتہ بیٹوں کا ہاتھ تو سست ہوتا گیا مگر ماں کا باب باب تیز ہی ہوتا گیا۔ آخر جب گھسیٹے اور فقیرا میں نگلنے کی بالکل سکت نہ رہی تو دونوں نے بچا کھچا کھانا آگے سے سرکادیا، اور وہیں پڑ کر بیڑیاں پینے لگے۔ بڑھیا چلاتی رہی۔ آخر چلاتے چلاتے تھک کر وہ بھی ٹوکرے میں گر پڑی۔ 

فقیرا بہت خوش تھا۔ اس کے دل میں اب تو یہ خیال تک نہ تھا کہ اگر کہیں کسی کو معلوم ہوگیا تو کیا ہوگا؟ اب اس کے سامنے ایک دنیا تھی جس میں چھپر نیا ہوگیا تھا۔ اس میں ایک طرف لپا پتا چولھا تھا جسے رمضانی کی بیوہ جھکی ہوئی پھونک رہی تھی۔ جب چراغ جلے بکریوں کا ایک بڑا سا گلہ لئے وہ واپس آتا ہے تو رمضانی کی بیوہ جلدی جلدی گرما گرم و سرخا سرخ روٹیاں پکا کر سامنے رکھ دیتی ہے۔ تھالی میں (گھر میں ایک پھول کی تھالی بھی آگئی ہے) ایک طرف بکری کا مسکا بھی ہے—فقیرا خوش تھا۔ بہت خوش۔ 

گھسیٹے کی طبیعت بھی زوروں پر تھی۔ زندگی میں پہلی بار کامیابی ہوئی تھی۔ کامیابی سی کامیابی! پونے دو روپئے اور صرف ایک دن میں۔ پچاس روپیہ مہینہ افوہ! اگر ہم کہیں کلکتے میں ہوتے تو وہاں کتنی آمدنی ہوتی! پھر جب روپیہ ہو تو کلکتہ کی زندگی! سنگل چائے، بیڑیاں، تاڑی خانہ، بھنا گوشت، وہ سالی نخریلی رنڈیاں، وہ ان کا مٹک مٹک چلنا، گود میں بل کھا کھا جانا۔ گھسیٹے مسکرانے لگا۔ کچھ دیر انہی خیالوں میں ڈوبا رہا۔ پھر ذرا سنجیدہ ہوگیا۔ سوچنے کی بات ہی تھی۔ فقیرا نے سارے گھر پر قبضہ کر لیا ہے۔ سب بکریاں اپنی کر لی ہیں۔ حصہ مانگا تو سسرا بگڑتا ہے۔ جی چاہتا ہے سر پھوڑدوں سالے کا۔ اب اماں میں بھی حصہ بٹائے گا— نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ میں گھردے دوں گا، بکریاں دے دوں گا، مگر اماں کو نہیں دے سکتا۔ آخر میں بھی تو اس کا لڑکا ہوں اور اب فقیرا کا حق ہی کیا ہے؟ وہ سب کچھ تو لے چکا۔ اتنے دنوں تک اماں بھی اسی کی رہی، آخر مجھے بھی تو کچھ ملے۔ اماں کو میں نہیں دے سکتا۔ اگر وہ تکرار کرے گا تو ماروں گا، سر پھوڑ دوں گا— حرامی سالا فقیرا! 

گھسیٹے سوچ سوچ کر کھولنے لگا۔ فقیرا اتنی دیر میں اونگھ گیا تھا۔ گھسیٹے نے اس کو جھنجھوڑ کر جگایا اور کہا، ’’فقیرا سونا بعد کو پہلے حصہ بانٹ لو۔ آج یہ جھگڑا چک جانا چاہیئے۔‘‘ 

’’کاہے کا حصہ بانٹ؟‘‘ 

’’ہاں اب تو کہوگے کاہے کا حصہ۔ ارے گھر کا ، بکریوں کا اور جو کمایا ہے اس کا۔‘‘ 

فقیرا تلملا کر اٹھ بیٹھا۔ 

’’پھر وہی گھر، پھر وہی بکریاں۔ ہزار بار کہہ دیا کہ ابا کا بنایا ہوا چھپر پندرہ برس ہوئے جب ہی سڑ گل کر ختم ہوگیا تھا۔ یہ میں نے بنوایا ہے۔ اور وہ بکریاں بھی مرکھپ گئیں۔ یہ سب میری پالی ہوئی ہیں چلا ہے حصہ بانٹ کرنے اور اتنے دنوں تو جو ہماری روٹی توڑتا رہا ہے؟‘‘ 

فقیرا اب شہر والا فقیرا نہیں تھا۔ شہر سے نکلتے ہی پھر شیر ہوگیا تھا۔ 

گھسیٹے غصے میں مگر سمجھانے کے انداز میں کہنے لگا: ’’اچھا چلو گھر تم لے جاؤ اور بکریاں بھی تم ہی لے جاؤ۔ مگر لاؤ ہماری اماں کو ہمیں دے دو۔ اتنے دنوں اگر تم نے کھلایا ہے تو اب ہم کھلائیں گے۔‘‘ 

’’ہاں اب تو تو کھلائے ہی گا؟ پندرہ برس میں پالتا رہا۔ گو، موت صاف کرتا رہا۔ تب اماں کی یاد نہ آئی۔ اب جو کمائی کے قابل ہوگئی تو اماں تیری ہے۔ تجھے دے دوں؟ مجال ہے تیری تو لے جائے؟‘‘ 

گھسیٹے پر بھوت سوار ہوگیا اور وہ غصے میں ماں کی طرف لپکا۔ جیسے اس کو جب ہی میں تو رکھ لے گا، مگر فقیرا فوراً کود کر سامنے آگیا اور لگا گھسیٹے کو گالیاں دینے۔ گھسیٹے کا پارہ حد سے اونچا ہوگیا۔ اس نے بڑھ کر فقیرا کو زور سے دھکا دیا اور دوڑ کر بڑھیا کو اس طرح ہاتھوں میں دبوچ لیا گویا وہ کوئی گٹھری ہے۔ جس طرح بلی چوہے پر جھپٹتی ہے فقیرا بڑھیا پر جھپٹا اور اس کے سر اور کمر میں ہاتھ دے کر اپنی طرف کھینچنے لگا۔ بڑھیا اس بلی کی طرح جس کا بچہ مر گیا ہو عو عو کر کے حلق پھاڑ پھاڑ رونے لگی۔ مگر ان دونوں کی گالیوں اور غل غپاڑے کے نیچے اس کی آواز دب گئی۔ تھوڑی دیر چھینا جھپٹی ہوئی تھی کہ بڑھیا فقیرا کے ہاتھوں میں آگئی تھی۔ نہ جانے فقیرا نے زور کر کے چھین لیا یا گھسیٹے نے بڑھیا کے مرجانے کے ڈر سے اسے خود ہی چھوڑ دیا۔ مگر فقیرا جیسے ہی اس کو گالیاں دیتا پیچھے ہٹا ہے گھسیٹے بھوکے بھیڑیے کی طرح اس پر پھاند پڑا۔ وہ تڑسے کھڑے قد نیچے گر پڑا۔ اور بڑھیا چیختی، قلا بازی کھاتی ایک طرف جا پڑی۔ گھسیٹے فقیرا پر چڑھ بیٹھا اور دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹنے لگا۔ فقیرا کا اور تو کوئی بس نہیں چلا وہ نیچے سے اس کے سینے اور منہ پر گھونسے جمانے لگا۔ گھسیٹے جیسے جیسے گھونسے کھاتا ویسے ہی ویسے زور سے گلا دباتا۔ آخر فقیرا کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑگئے۔ گھسیٹے نے کس کس کر دو جھٹکے اور دیئے۔ فقیرا کی آنکھوں کے ڈیلے غلوں کی طرح باہر نکل آئے، منہ بھیانک ہوگیا اور ہاتھ پاؤں برر گئے۔ اب گھسیٹے کا غصہ اترا اور پتہ چلا کہ میں نے کیا کیا۔ وہ کانپ کر کھڑا ہوگیا اور سکتے کی سی حالت میں فقیرا کو گھورنے لگا۔ اس کا چہرہ رام لیلا کے بیچا کی طرح ہونق ہوگیا۔ 

تھوڑی دیر میں گھسیٹے نے اپنے حواس درست کر لیے۔ کلکتہ میں ایسے ایسے کئی قصے یہ دیکھ چکا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اس کے ساتھیوں میں آپس میں لڑائی ہوئی اور ایک نے دوسرے کو مار ڈالا۔ ڈر کس بات کا؟ فقیروں کے مرنے جینے کی کسے پروا ہوتی ہے۔ مر گیا— مرگیا—ہا —فقیرا — ناحق مرا۔ مان لیتا میری بات۔ میں نے کیا برا کہا تھا کہ اتنے دنوں تک اماں تم نے رکھی ہے۔ اب مجھے دے دو۔ ارے ہاں۔ میں بھی تو کچھ دنوں زندگی کی بہار دیکھ لوں۔ مرکے بھی تو جان ہے۔ مجھے اینٹ پتھر سمجھا تھا، جیسا کیا ویسا بھگتا۔ 

ہاں اب جلدی سے اماں کو لو اور بھاگو—پیاری اماں—کلکتہ وہاں کی بھیک کا کیا کہنا! اب مزا لے گا کلکتہ کا۔ 

گھسیٹے جلدی سے بڑھیا کی طرف مڑا۔ دیکھا تو وہ آدھی چت آدھی پٹ، مٹی کے چونتھ کی طرح ڈھیر ہے، آنکھیں چڑھ گئی ہیں۔ منہ کلھیا کی طرح کھلا ہوا ہے اور اس میں سے رہ رہ کر بلغم اور تھوک میں لتھڑی آدھی چبی آدھی پوری غذا نگل رہی ہے۔ نکتیاں، گلاب جامن، پوری کے بھیگے ہوئے ٹکڑے۔ لوندے کے لوندے۔ زرد زرد پھین۔ گھسیٹےنے بڑھ کر ہاتھ لگایا—بڑھیا میں کچھ نہیں تھا۔ 

سورج ڈوب گیا تھا۔ کھنڈر کا ہر کونا بلاؤں کا بھٹ معلوم ہوتا تھا۔ پت جھڑ ہوا کے جھکڑ سینکڑوں میل سے درختوں کو تاراج کرتے مردہ پتیوں کو اٹھا اٹھا کر پٹکتے۔ وحشت ناک سروں میں سائیں سائیں کرتے ایک طرف سے آرہے تھے اور دوسری طرف بھاگے جارہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہر چیز کو اڑا کر لے جائیں گے، گھسیٹے ہکا بکا کھڑا تھا۔ اس کے ایک طرف بھائی کی لاش تھی اور دوسری طرف ماں کی۔ دونوں پہلو میں اس کی آخری کوشش کی بھی لاش تھی۔ جب تک ماں زندہ تھی بھیک کا ٹھیکرا تھی مگر مر کر وہ اس کے دل میں سچ مچ ماں بن گئی تھی۔ یہ وہی ماں تھی جو اس کے ہر دکھ پر بیتاب ہوجاتی تھی۔ اس کی ہر خوشی پر اپنی خوشی قربان کر دیتی تھی۔ فقیرا بھی آخر بھائی ہی تھا۔ زندگی کا سہارا اس کی یاد کلکتہ کی بے کسی میں بھٹکے مسافر کا دیا تھی۔ ان دونوں کے مرتے ہی جو رہا سہا دنیا کا رشتہ تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔ سمجھتا تھا کہ اب تو کشتی کنارے لگ چکی ہے پیشہ مل گیا ہے اور اس کا بہتر سے بہتر سامان ہاتھ آگیا ہے۔ سب کچھ مل گیا تھا مگر ابھی خود اس کے قابل نہیں بنا تھا—امید کی آخری کرن ڈوب گئی۔ اب زندگی کی اتھاہ مصیبتیں، طوفانی سمندر کی طرح آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے ہر طرف تھیں۔ اس کے بھیانک بھنور منہ پھاڑےبڑھ رہے تھے اور پاس تنکے تک کا سہارا نہ تھا۔ 

گھسیٹے سرجھکائے افق کی طرف چل کھڑا ہوا۔ 

   1
0 Comments